*بسم اللہ الرحمن الرحیم*

 

*سوال :*

کیا *نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) اور علی بن ابی طالب (علیہما السلام)* نے واقعہ کربلا کا تذکرہ کیا تھا اور گریہ کیا تھا ؟ کیا اہل سنت کتابوں میں اس کا بیان موجود ہے ؟

 

*جواب :*

یقینا *نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) اور علی بن ابی طالب (علیہ السلام)* نے اس کا تذکرہ فرمایا تھا اور اس کے تذکرے پر غمزہ ہوئے تھے اور گریہ فرمایا تھا۔ اس حوالے سے سند کے اعبتار سے بعض صحیح روایات موجود ہے یہاں تک کہ سلفی (فرقے) کی بنیادی کتابوں میں بھی :

 

طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ – قابل اعتماد راویوں سے – اپنی کتاب ’’المعجم الکبیر‘‘ میں *’’حسین (علیہ السلام) کی شخصیت‘‘ میں لکھا ہے کہ : اُمّ سلمہ (رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: حسن اور حسین (رضی اللہ عنھما) میرے گھر میں نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کے سامنے کھیل رہے تھے، کہ جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا: اے محمّد (ص)، یقینا آپ کی امّت آپ کے بعد آپ کے اس بیٹے کو قتل کر دے گی۔ پھر جبرئیل (ع) نے اپنے ہاتھ سے حیسن (ع) کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے گریہ فرمایا اور حسین (ع) کو اپنے سینہ سے لگا لیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے (اُمّ سلمہ (رض) سے) فرمایا : ’’یہ مٹی میری طرف سے تمہارے پاس امانت ہے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا : ’’ہائے کرب و بلاء‘‘۔*

 

*اُمّ سلمہ (رض) فرماتی ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے فرمایا : ’’اے امّ سلمہ ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو تم جان لینا کہ یقینا میرے بیٹے کو قتل کر دیا گیا۔‘‘* راوی کہتا ہے : پھر اُمّ سلمہ (رض)  نے اس مٹی کو ایک برتن میں رکھ دیا، پھر وہ اس کو روزانہ دیکھ لیا کرتی تھی اور فرماتی تھی : یقینا وہ دن جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے بڑا ہولناک دن ہوگا۔‘‘(المعجم الکبیر 3: 108 حدیث (2817) مسند الحسین بن علی.) اور اس کو طبرانی کے علاوہ نے بھی بیان کیا ہے۔( تاریخ مدینة دمشق 14: 192، مجمع اوائد 9: 9، تهذیب الکمال 6: 408، تهذیب التهذیب 2: 300.)

 

اور عبد بن حمید نے بیان کیا ہے: ’’میں عبد الرزّاق ، میں عبد اللہ بن سعید بن ابی ھند، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے کہا کہ : *اُمّ سلمہ (رض)  نے فرمایا: نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وس لّم) میرے گھر میں سوئے ہوئے تھے اور حسین (ع)* تشریف لائے، اُمّ سلمہ (رض) فرماتی ہے : میں دروازے پر بیٹھ گئی تا کہ ان کو روک لوں اس خوف سے کہ وہ کہی اندر داخل ہو کر *رسول (ص)* کو بیدار نہ کر دے۔ اُمّ سلمہ (رض) فرماتی ہیں : پھر میں کسی کام میں لگ گئی، اور وہ خاموشی سے داخل ہو گئے اور *آپ (ص)* کے شکم اقدس پر بیٹھ گئے، اُمّ سلمہ (رض) فرماتی ہے : میں نے سنا کہ *رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) گریہ فرما رہے ہے، تو میں جلدی سے آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! قسم بخدا مجھے اس کا علم نہیں تھا۔تو آپ (ص) نے فرمایا: میرے پاس جبرئیل (ع) آئے تھے جبکہ حسین (ع) میرے شکم پر تھے تو جبرئیل (ع) نے مجھ سے کہا : آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟میں نے کہا : ہاںجبرئیل (ع) نے کہا: یقینا آپ کی امّت اس کو عنقریب قتل کر دے گی، کیا میں آپ کو وہ متی دیکھاؤں کہ جس میں اس کو قتل کیا جائے گا ؟آپ (ص) نے فرمایا: میں نے کہا : ہاں۔آپ (ص) نے فرمایا: پس جبریل (ع) نے اپنے پر کو مارا اور مجھے یہ مٹی دی۔اُمّ سلمہ (ع) نے فرمایا: تب آپ (ص) کے دست مبارک میں سرخ مٹی تھی اور آپ (ص) گریہ فرما رہے تھے، اور کہہ رہے تھے : ’’کاش مجھے معلوم ہوتا کہ میرے بعد تمہیں قتل کرے گا ؟‘‘* (المنتخب من مسند عبد بن حمید: 443 حدیث أم سلمة.)

 

طبری نے اپنے سند کے ساتھ – اور قابل بھروسہ راویوں – سے بیان کیا ہے کہ اُمّ سلمہ (ع) سے مروی ہے : انہوں نے فرمایا: *رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) ایک دن میرے گھر میں تشریف فرما تھے، تب آپ (ص) نے فرمایا : ’’میرے پاس کسی کو آنے نہ دینا‘‘ تو میں دیکھتی رہی، تو حسین (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے، تو میں نے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) آہستہ آہستہ رو رہے ہیں، تو میں پہنچی تو حسین (ع) آپ (ص) کے حجر میں تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ان کی پیشانی کو چم رہے تھے اور گریہ کرتے جا رہے تھے، میں نے عرض کیا : قسم بخدا ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ کب داخل ہو گئے۔ آپ (ص) نے فرمایا : ’’یقینا جبرئیل میرے ساتھ اس گھر میں موجود تھے، تو انہوں کہا: کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے کہا : ہاں، دنیا میرا محبوب ہے۔جبرئیل (ع) نے کہا : یقینا آپ کی امت اِس کو اُس زمین میں کہ جس کو کربلاء کہا جائے گا قتل کر دے گی، پھر جبرئیل (علیہ السلام)نے اس زمین کی مٹی مجھے پیش کی اور نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) نے وہ مٹی دکھلائی*۔ پھر جب زمانہ قتل میں *حسین (ع) کو گھیر لیا گیا تو آپ (ع) نے دریافت کیا : ’’اس زمین کا نام کیا ہے ؟‘‘ لوگوں نے کہا : کربلاء، آپ (ع) نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا تھا کرب (مصیب) و بلاء (آفت) کی زمین ہے۔‘‘* (المعجم الکبیر 3: 108 حدیث (2819) مسند الحسین بن علی.)

 

ھیثمی نے ’’مجمع اوائد‘‘ میں اس کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ’’اس کو طبرانی نے اپنی سندوں حوالے سے لکھا ہے اور ان سندوں میں سے ایک کے راوی قابل اعتماد ہیں۔‘‘ (معجم اوائد 9: 9 باب مناقب الحسین بن علیّ(علیهما السلام)۔)

جواب ماخوذ از : http://www.aqaed.com/faq/6567/

 

Join our groups:

https://t.me/expressionoftruth

https://chat.whatsapp.com/FDYngg8LBgvL9Itz6yA8D6

امام مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف اہل سنت کتابوں

اہل سنت کتابوں میں موجود امام (عج) کے خروج کے متعلق احادیث

لوح محفوظ کی پُر از حکمت کتاب

اخوان الصفا کے کتابچوں کی حقیقت

ائمہ (ع) کے اسماء اور اہل سنت کتابیں

آپ (ص) کا گریہ اور اہل سنت کتابیں

‘‘الصراط’’ کا معنی

اللہ ,علیہ ,فرمایا ,سلّم ,سلمہ ,میرے ,اللہ علیہ ,اُمّ سلمہ ,رسول اللہ ,علیہ السلام ,*رسول اللہ
مشخصات
آخرین جستجو ها