*بسم اللہ الرحمن الرحیم*

 

محمد علی معلا / شام

 

*سوال :*

میرا سوال *اللہ تعالی کے قول : ‘‘  وَ إِنَّهُ فی أُمِّ الْکِتابِ لَدَیْنا لَعَلِیٌّ حَکیمٌ ’’* (اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور پُر از حکمت کتاب ہے) کے متعلق ہے، امید کرتا ہوں کہ اس آیت کریمہ کی تشریح کریں گے اور اس سے جو مقصود ہے اس کو بیان کریں گے۔

 

*جواب:*

برادرِ محترم محمد

السلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

مفسرین نے اس آیت قرآنی کے لئے متعدد پہلو بیان کئے ہیں، ان میں سے بعض کو ہم ذکر کرتے ہیں :

‘‘تفسیر المیزان’’ میں ہے کہ : یہ قرآنی آیت سابقہ آیت میں جو بات بیان کی گئی تھی اس کی تاکید بیان کرتی ہے کہ یہ کتاب اپنے اصلی مقام میں عقلوں کے تصوّر سے بالاتر ہے اور آیت میں موجود ‘‘ إِنَّهُ ’’ کی ضمیر اس سے پہلے والی آیت میں موجود ‘‘الکتاب’’ کے لفظ سے مربوط ہے، اور امّ الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے جیسا کہ *اللہ تعالی فرماتا ہے :  ‘‘ بَلْ ھُو قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ، فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ ’’* (یقینا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے، جو لوح محفوظ میں محفوظ کیا گیا ہے) (سورہ بروج : ۲۱-۲۲) اور اس کا نام امّ الکتاب اس وجہ سے ہے چونکہ یہ تمام آسمانی کتابوں کی اصل ہے جس سے ہر آسمانی کتاب کے نسخہ کو نکالا کیا گیا ہے اور ‘‘ام الکتاب’’ کے ساتھ ‘‘لدینا’’ کی قید وضاحت کی خاطر ہے نہ کہ کسی اشتباہ سے بچانے کے لئے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ‘‘اس حالت میں کہ یہ ہمارے پاس امّ الکتاب میں ہے – لازمی حال کی صورت -  جو علی اور حکیم ہے’’ اور ‘‘یہ علی ہے’’ سے کیا مراد ہے اس کو سابقہ آیت کا معنی واضح کر رہا ہے کہ : یہ اتنی اعلی قدر و قیمت اور منزلت کی حامل ہے کہ عقلوں کی اس تک رسائی ممکن نہیں ہے اور ‘‘یہ حیکم ہے’’ کا معنی ہے : وہاں یہ محکم حالت میں ہے، مفصل نہیں ہے اور سوروں، آیات، جملوں اور الفاظ میں تقسیم نہیں ہے، جس طرح اس کے قرآنِ عربی کی صورت میں نازل دینے ہونے کے بعد تقسیم بندی کی گئی ہے۔ جیسے یہ معنی *اللہ تعالی کی اس قول سے حاصل ہوتا ہے : ‘‘ کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ ’’* (یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں) (سورہ ھود : ۱)

 

اور یہ دونوں صفتیں یعنی اس کا علی اور حکیم ہونا یہ دونوں اس کے لئے لازم ہے چونکہ یہ انسانی عقلوں سے بالاتر ہے۔ چونکہ عقل اپنی فکر میں فقط ان باتوں تک رسائی حاصل کر سکتی ہے جو معانی اور الفاظ کی طرح پہلے سے وجود رکھتے ہو اور وہ ایسے مقدماتِ تصدیقیہ (بنیادی یقینی معلومات) پر مشتمل ہو جو ایک دوسرے پر مرتب ہو سکتے ہو جیسے کہ آیات اور قرآنی جملے، مگر جب صورت حال معانی اور الفاظ سے بالاتر ہو اور ان کو اجزاء اور فصلوں میں تقسیم نہ کیا گیا ہو تو ایسی صورت میں اس تک رسائی حاصل کرنے کا عقل کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، اس بنا پر ان دونوں آیتوں کے معنی کا خلاصہ یہ ہے کہ : یقیناً وہ کتاب جو ہمارے پاس لوح محفوظ میں ہے وہ ایسے بڑے بلند مقام اور اعلی احکام کی حامل ہے جن تک اس کی ان دونوں صفتوں کی وجہ سے عقلوں کی رسائی ممکن نہیں ہے، ہم نے اس کو عربی میں پڑھا جا سکے اس طرح سے فقط اس امید پر نازل کیا ہے کہ انسان اس پر غور و فکر کرے (دیکھیئے : تفسیر المیزان ج۱۸ ص ۸۴).

 

اور ‘‘تفسیر نور الثقلین’’ میں ان روایات کو بیان کیا گیا ہے جو خصوصی طور سے اس آیت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہے اور ان روایات میں سے :

 

۱۔تفسیر علی بن إبراهیم  میں: اور *اللہ عزّ و جلّ کا قول : ‘‘وَ إِنَّهُ فی أُمِّ الْکِتابِ لَدَیْنا لَعَلِیٌّ حَکیمٌ ’’ (اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور پراز حکمت کتاب ہے) یعنی أمیر المؤمنین صلوات الله علیه، سورہ فاتحہ میں الله عز و جل کا قول مکتوب ہے ‘‘ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ ’’ کے طور پر تحریر ہے، ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا : ‘‘اس سے مراد أمیر المؤمنین صلوات الله علیه ہیں’’*۔

 

۲۔ تہذیب الاحکام میں *ابو عبد اللہ علیہ السلام سے منقول غدیر کے دن نماز کے بعد پڑھنے کی دعا میں ہے : پس میں گواہی دیتا ہو، اے الھی کہ یہ وہی امام، ہادی، راہنما، ہدایت یافتہ، علی امیر المؤمنین ہیں کہ جن کا تذکرہ تونے اپنی کتاب میں کرتے ہوئے فرمایا ہے : ‘‘  وَ إِنَّهُ فی أُمِّ الْکِتابِ لَدَیْنا لَعَلِیٌّ حَکیمٌ  ’’* (اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور پراز حکمت کتاب ہے) نہ تو میں نے اس کی امامت میں کسی کو شریک قرار دیا ہے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی کو معتمد و ساتھی بنایا ہے۔

 

۳۔ کتاب معانی الاخبار میں *أبو عبد الله (علیه السلام) سے الله عزوجل کے اس قول : ‘‘ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ ’’ (ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ) کے سلسلہ میں مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا : اس سے مراد أمیر المؤمنین علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی معرفت ہے، اس سے مراد امیر المؤمنین علیہ السلام ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ عزّ و جلّ نے فرمایا : ‘‘  وَ إِنَّهُ فی أُمِّ الْکِتابِ لَدَیْنا لَعَلِیٌّ حَکیمٌ  ’’ (اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں نہایت درجہ بلند اور پراز حکمت ہے) اور یہ امیر المؤمنین علیہ السلام ہیں جو ام الکتاب میں اللہ تعالی کے اس قول : ‘‘ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ ’’* (ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت فرماتا رہ) کی صورت میں ہے۔

 

‘‘تفسیر القمی’’ میں اُسی معنی کو بیان کیا گیا ہےجس کا تذکرہ صاحبِ ‘‘تفسیر نور الثقلین’’ نے کیا ہے۔ اور یقیناً اس آیت کی دیگر تفاسیر بھی کی گئی ہے جن کو صاحب المیزان نے ضعیف قرار دیا ہے، تو آپ مطالعہ کے لئے وہاں رجوع کر سکتے ہیں۔

آپ ہمیشہ *اللہ تعالی* کی حفاظت میں رہے۔

حوالہ : http://www.aqaed.com/faq/2384/

 

Join our groups:

https://t.me/expressionoftruth

https://chat.whatsapp.com/FDYngg8LBgvL9Itz6yA8D6

امام مہدی (عج) کی ولادت کا اعتراف اہل سنت کتابوں

اہل سنت کتابوں میں موجود امام (عج) کے خروج کے متعلق احادیث

لوح محفوظ کی پُر از حکمت کتاب

اخوان الصفا کے کتابچوں کی حقیقت

ائمہ (ع) کے اسماء اور اہل سنت کتابیں

آپ (ص) کا گریہ اور اہل سنت کتابیں

‘‘الصراط’’ کا معنی

کتاب ,السلام ,محفوظ ,علیہ ,بیان ,حکمت ,علیہ السلام ,نہایت درجہ ,حکمت کتاب ,درجہ بلند ,أُمِّ الْکِتابِ ,أُمِّ الْکِتابِ لَدَیْنا ,الْکِتابِ لَدَیْنا لَعَلِیٌّ ,اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ ,ہمیں سیدھے راستہ
مشخصات
آخرین جستجو ها